جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے، حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے ہیں اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں، تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے اپنی استعداد و قابلیت کے اعتبار سے اس کی کرنوں سے فیض حاصل کیا۔اسلام کے مبلغ و موسّس سرورکائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا۔ آپ کے تمام الٰہی پیغامات نظریات اوراعمال فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھے، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں۔وہ تہذیبی اصنام جو ممکن ہے کج فکر افراد کو دیکھنے میں اچھے لگتے ہوں لیکن اگروہ حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔
اگرچہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گراں بہا میراث کہ جس کی حفاظت و پاسپانی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر کی ہے، خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکروقت کے ہاتھوں اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں اسلامی دنیا کو خدمت میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشورپیش کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظریاتی موجوں کے مقابلے میں اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں کے ذریعے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی اور ہرزمان و مکان میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام ، قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم ا لسلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں۔ اسلامی دشمن اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوست اس مذہبی وثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں۔یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔
مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام (عالمی اہل بیت ؑ کونسل)نے بھی مسلمانوں خاص طور پراہل بیتؑ عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر عقل و خرد پر استوار اہل بیتؑ عصمت و طہارت کی تعلیمات و ثقافت کوماہرانہ انداز میں عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتؐو رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکارسامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے آمادہ کیا جاسکتا ہے۔
ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں۔زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔کتاب ’’وقعۃ الطف‘‘(جس کو جناب حجۃ الاسلام والمسلمین محمد ہادی یوسفی غروی زید عزہ نے طبری کی روایت کے مطابق ابو مخنف کی تاریخ کربلا کوتحقیق فرما کر یکجا کیا ہے ) کو فاضل جلیل جناب مولانا سید مراد رضا رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے ،جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں۔اسی مقام پر ہم اپنے ان تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے۔خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔
والسلام مع الاکرام
مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام